پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر کے ساتھ ایک نشست

Dr. Ali Sajid
0

 پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر کے ساتھ ایک نشست

حصہ اول

میں (ڈاکٹر علی ساجد) خوش قسمت ہوں کہ  پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ پروفیسر ظفر معین ناصر صاحب اس وقت متحدہ عرب امارات میں اپنی تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا پچھلے 20 سال سے اچھا تعلق ہے۔ میں نے ان کے اندر انسانی ہمدردی ، محنت اور لگن کا بے پناہ جذبہ دیکھا۔ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی خدمات پر بجا طور پر فخر ہے۔  میں ڈاکٹر صاحب سے گزارش کروں گا کہ  آپ ہمارے نوجوانوں کے لیے اپنے بارے میں بتائیں کہ آپ نے اپنے کیر ئیر کا آغاز کہاں کیا اور کیسے کیا؟

پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر کے ساتھ ایک نشست
 پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر کے ساتھ ایک نشست

پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر :  ڈاکٹر (علی ساجد )صاحب آپ کا بہت شکریہ !

ڈاکٹر صاحب آپ نے بجا فرمایا کہ ہمارا آپ کے ساتھ تعلق تقریباً 20 سال پرانا ہے۔ اس میں بہت سارے اُتار چڑھاؤ آئے لیکن ہماری محبت آج بھی قائم ہے۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے پاکستان کے مسائل کے اوپر کھل کر بات کرنے کی اجازت دی۔ مجھے گفتگو کرنے کا موقع دیا۔ 

پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب یہ آپ کی اعلٰی ظرفی ہے ۔آپ کا بڑا پن ہے کہ آپ نے ہمیں موقع دیا۔ ہم اس گفتگو میں کوشش کریں گے کہ تعلیمی مسائل پر بحث کریں اور ان کے حل پیش کریں نوجوانوں کے لیے اور آئندہ نسل کے لیے۔ ڈاکٹر صاحب آپ نے بڑی گاڑیوں اور بنگلوں سے اپنے کیریئر کا آغاز نہیں کیا۔ جائیداد آپ کے پاس نہیں تھی۔ بہت سادگی سے آپ نے آغاز کیا اور ترقی کی منزلوں تک پہنچے آپ نوجوانوں کو کیا بتانا چاہیں گے کہ کیا کامیاب ہونے کے لیے دولت مند ہونا ضروری ہے یا کوئی عام سا آدمی بھی ترقی کر سکتا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر:  ڈاکٹر علی ساجد صاحب آپ نے بالکل درست فرمایا کہ ہم سب نے نچلی سطح سے محنت کی۔ ہم کوئٹہ میں رہتے تھے۔ اس کے بعد میرے والدین راولپنڈی میں منتقل ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم میں نے راولپنڈی سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد میں نے گورنمنٹ کالج اصغر مال سے ایف ایس سی اور بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد میں قائد اعظم یونیورسٹی چلا گیا۔ اس وقت ایسے حالات نہیں تھے کہ والدین اپنے بچوں کو بڑی بڑی گاڑیاں دے سکیں اگر والدین کسی کو سائیکل بھی دے دیتے تو یہ اس کے لیے بڑی بات تھی۔ اکثر طلبہ کو پیدل چلنا پڑتا تھا۔ گورنمنٹ کی بسیں اس وقت بہت بہترین سفر کا ذریعہ تھا۔ ایسی صورتحال میں، میں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے پائڈ PIDE میں کام کرنا شروع کیا۔ پائڈ PIDE  "پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ ان اکنامکس" پاکستان کا ایک تحقیقاتی ادارہ ہے۔ اس پہ میں نے کام کرنا شروع کر دیا۔ جو بھی اس ادارے میں آتا تھا اس کو پالیسی بنانے میں بہت مہارت اور تجربہ حاصل ہوتا تھا۔ اسی ادارے سے ہو کر بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے لوگ ہمارے پہنچے ۔ میں نے اپنے کیریئر کا آغاز اسی ادارے سے شروع کیا بطور ماہر معاشیات کی حیثیت سے۔ 1990ء میں مجھے منتخب کیا گیا امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں ماسٹرز کرنے کے لیے۔ انتخاب کے بعد میں کینساس یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے لیے چلا گیا۔ میری بہترین کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ڈیپارٹمنٹ نے مجھے پی ایچ ڈی کے لیے سکالرشپ دے دی۔ اور وہیں پر مجھے پڑھانے کا موقع بھی دیا گیا۔ اگلے پانچ سال تک میں نے وہاں پر پی ایچ ڈی بھی کی اور پڑھاتا بھی رہا۔ 1997ء میں، میں پاکستان واپس آگیا اور اسی ادارے کو دوبارہ جوائن کیا۔ اس وقت ہماری ترقی کے لیے ضروری تھا کہ ہمیں کوئی تحقیقاتی مراسلہ جاری کرنا تھا۔ میں نے ایک سال کے اندر اپنا ہدف پورا کیا اور ریسرچ پیپر شائع کیا۔ اس کی مدد سے میں گریڈ 18 اور 19 تک تقریباً دو سالوں تک پہنچ گیا۔ مزید ترقی کے لیے آپ کو تقریباً چار پانچ ریسرچ آرٹیکلز کی ضرورت پڑتی ہے اور کچھ انٹرنیشنل کانفرنسز کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ ہدف بھی میں نے پورا کیا ہے۔ اور جولائی 2013ء کو میں بیسویں گریڈ پر ترقی کر گیا۔ منسٹری آف لیبر اینڈ مین پاور آف گورنمنٹ آف پاکستان کا ایک سیل تھا 2006ء میں۔ دو سال میں ہم نے روزگار کے لیے منصوبے بنائے اور پیش کیے۔ 2008ء میں ہماری امیگریشن ،لیبر اور ہیومن ریسورس کے اوپر جو بھی پالیسیز تھی وہ کیبنٹ نے منظور کی۔ لیکن اس کے بعد حکومت تبدیل ہوئی تو ہماری وہ پالیسیز عمل میں نہیں آ سکیں۔ اس کے بعد تقریباً 2008ء میں میں واپس PIDE میں چلا گیا۔ اس وقت پائڈ PIDE کو ایک بہترین ادارہ بنانا تھا۔ میں اس پروجیکٹ کا پروجیکٹ ڈائریکٹر بن گیا۔ میں تحقیقات بھی کرتا رہا اور اسی طرح مجھے ڈین آف ڈیپارٹمنٹ بھی بنا دیا گیا۔ پائڈ میں اس وقتMBA کے پرو گرام میں  پہلے سمسٹر میں پانچ سے چھ طلبہ آتے تھ۔ے جب میں ڈین بنا میں اس ابتدائی تعداد کو 35 تک لے گیا اور سیکنڈ سمسٹر میں ہم اس کو 75 طلبہ تک لے گئے۔ ہمارے ادارے میں بہت اچھے اچھے طلبہ آئے جنہوں نے عملی زندگی میں بڑے بڑے اداروں میں کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں جن پر ہمیں آج بھی فخر ہوتا ہے۔ ہم نے انتظامی امور کو بہتر کرنے کی پوری کوشش کی اور نئے سے نئے اور بہتر سے بہتر طلبہ کو کشش دینے کے لیے ہم نے پوری کوشش کی۔ پائڈ PIDE  میں رہتے ہوئے تقریباً میں 2011ء گریڈ پر چلا گیا۔ 2012ء میں متحدہ عرب امارات میں ایک امریکن یونیورسٹیز نے میرے ایک دوست کے ذریعے سے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے آنے کی پیشکش کی۔ میں نے پائڈ سے چھٹی لی اور امریکن یونیورسٹی میں بطورڈین میں منتخب ہو گیا اور متحدہ عرب امارات میں منتقل ہو گیا۔ 2015ء تک میں نے وہاں پہ خدمات سر انجام دی۔ 2016ء میں میں پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر منتخب ہوا۔ 2018ء تک میں پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہا۔ اس کے بعد امریکن یونیورسٹیز نے دبئی میں مجھے دوبارہ بلا لیا ہے وہاں پر میں 2020 ءتک رہا۔ کرونا کی وباء سے پوری دنیا متاثر ہوئی اس سے میں بھی متاثر ہوا اس دوران میں پاکستان واپس آگیا۔ جب میں نے پنجاب یونیورسٹی کو چھوڑا تھا اس وقت سالار یونیورسٹی لاہور سے مجھے پیشکش آئی اس کو بہتر کرنے کے لیے۔ میں ان سے ابھی بھی منسلک ہوں لیکن ان کے کچھ معاملات تھے جس کی وجہ سے وہ ا شروع نہیں ہو سک۔ے لیکن جیسے ہی ان کے معاملات شروع ہوں گے تو میرا سلسلہ بھی ان کے ساتھ ابھی جاری ہے تو تب تک میں نے مناسب سمجھا کہ مجھے جو بھی باہر سے موقع ملتا ہے تو میں اس سے فائدہ اٹھاؤں۔ اس کے بعد مجھے ایک اور یونیورسٹی نے دبئی میں بلایا بطور پروفیسر تو میں وہاں پہ چلا گیا۔ ڈاکٹر صاحب یہ میری زندگی کا سفر ہے مختصر طور پہ کہ میں نے کہاں سے آغاز کیا اور کیسے یہاں تک پہنچا۔ 

پروفیسر ڈاکٹر علی ساجد: بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب آپ نے بڑی جدوجہد کی محنت سے لگن سے ایمانداری کے ساتھ کام کرتے رہے اور یقینی سی بات ہے کہ آپ نے اپنے اصولوں کی خاطر اپنے قربانیاں بھی دی ہیں اور یقیناً آپ کی زندگی آپ کا سفر نوجوانوں کے لیے امید کی راہ ہے۔ آپ ان گنے چنے لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی محنت مشقت اور سفر کے دوران بہت اچھی روایات قائم کیے ہیں جن پر ہم لوگوں کو بجا طور پر فخر حاصل ہے۔ جب آپ پنجاب یونیورسٹی  میں تھے مجھے یاد ہے کہ آپ نے وہاں پہ بہت اچھی روایات قائم کیں وہاں پہ ثقافت کو پروان چڑھایا اخلاقی اقدار کی پرورش کی اور تعلیم کے حوالے سے بہترین اقدامات کیے۔

حصہ دوئم 

ڈاکٹر علی ساجد : ڈاکٹر (ظفر معین ناصر) صاحب میں نے ہمیشہ اپ کو کوشش کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اصولوں کی خاطر لڑتے ہوئے دیکھا ہے ۔ میں نے آپ کو معاشرے میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ مجھے یاد ہے جب آپ پنجاب یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر آئے تھے آپ نے تحقیق اور تعلیم کے اوپر بہت کام کیا۔ آپ نے پانچ پانچ لاکھ کیش انعام بھی دیا تاکہ لوگ تحقیق کی طرف آئیں۔ لوگوں میں روایتی سوچ سے نکل کر کچھ حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ لیکن معلمین کی صورت میں لاہور میں جو مافیا موجود تھا ان کو ختم کرنے کی کوشش کے باوجود اب وہ مافیا ختم نہیں کر سکے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہم آپ کے بارے میں سنتے تھا۔آپ کی مشکلات کا اندازہ بھی ہوتا تھا۔ لیکن آپ پنجاب یونیورسٹی چھوڑ کے چلے گئے یہ ہمارے لیے بہت بڑا قومی نقصان تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایسے کیا حالات تھے؟ آج آپ اس پہ روشنی ڈال سکتے ہیں؟

پروفیسر ظفر معین ناصر: میں پنجاب یونیورسٹی میں اپنی آمد سے شروع کروں گا۔ جب میں پنجاب یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر آیا تو میرا ایک مقصد تھا کہ میرٹ کی بنیاد پر فیصلے ہونگے۔ دوسرا میری سوچ یہ تھی کہ ایسا نہ ہو کہ ہم بڑے عہدے پر بیٹھ کر جو فیصلے کریں وہ نیچے والوں کو معلوم ہی نہ ہوں۔ان سمجھ ہی نہ آئے کہ ہو کیا رہا ہے۔ تیسرا ہم نے محنت قابلیت کے معیار بنائے ہوئے تھے۔ جو بھی اس معیار پر پورا اترے گا اس کی حوصلہ افزائی ضرور کریں گے۔ اس کے لیے مجھے بہت دشواری کا سامنا رہا۔ مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ جب آپ کسی ادارے میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔اس کے لیے مزاحمت کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے۔جب میں پنجاب یونیورسٹی میں آیا اس وقت حکومت کی مداخلت بھی کافی زیادہ تھی اور اساتذہ کی سیاست کا بھی بہت عمل دخل تھا۔ گروپ بندی کا سلسلہ چل تھا۔ایک گروہ دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ طلبہ کے گروپ بھی متحرک تھے۔ کچھ گروپ بہت حاوی تھے اور انہوں نے ہاسٹلز کے اندر بھی قبضے جمائے ہوئے تھے۔ یہ ایسے انتظامی مسائل تھے میں جن کے بارے میں سمجھتا تھا کہ اگر میں نے ان مسائل کو حل نہ کیا تو میرے خیال میں  میرا پنجاب یونیورسٹی میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ 

اب تدریس کے حوالے سے بھی میں نے دیکھا۔ جو ہمارا تدریسی طریقہ کار  ہےوہ بہتر نہ  ہو رہا۔ میں نے دیکھا یونیورسٹی میں جو 40 سال سے تدریسی طریقہ کار چل رہا ہے اس کو تھوڑا سا تبدیل ہونا چاہیے اور جدت کے مطابق ہونا چاہیے۔ میں نے کوشش کی کہ تدریس کے ساتھ تحقیق کو بھی پروان چڑھایا جائے۔ میری سوچ تھی کہ اتنی اچھی لیبارٹریز ہونے کے باوجود ہماری یونیورسٹی میں ایسی تحقیق کیوں نہیں ہو رہی جس سے ہمارے ملک کو فائدہ ہو۔ تحقیق کا ماحول بنانے کے لیے میں نے دس دس لاکھ کا انعام بھی مقرر کیا۔ مختلف جنرلز  میں پبلشنگ کے لیے ہم نے مختلف انعام کے درجے بنائے ہوئے تھے۔ ہم نے یہ بھی سلسلہ شروع کیا کہ جو طالب علم پہلے نمبر پر آئے گا  اس کو ہم نقد کی صورت میں سکالرشپ دیں گے ۔بالخصوص ایم فل  کے طلباء کے لیے ۔ پی ایچ ڈی کے حوالے سے ہم نے یہ کہا تھا کہ جو پی ایچ ڈی سکالر اچھے جنرلز میں پبلش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ان کو ہم یونیورسٹی میں نوکریاں دیں گے۔ پہلے یہ سلسلہ تھا جو  پرانا ہے اسی کو ہی فائدہ حاصل ہوتا تھا۔ چاہے وہ قابل ہے یا نہیں ہے۔ ہم نے کوشش کی کہ اس کا معیار بہتر کرنے کی کہ ایسا سلسلہ بنایا کہ جو اچھے جنرلز میں پبلش کر پائے گا اور اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے گا ہم اس کو سکالرشپ دینے کی پوری کوشش کریں گے۔ تحقیقی ماحول بنانے کے لیے لیبٹریز کے اندر جو تحقیق ہو رہی ہوتی تھی  اس کو کمرشل کرنے کی بھی کوشش کی۔ 

ہماری یونیورسٹی میں مائیکرو بیالوجی کی تحقیق کے ذریعے ایک ہائبرڈ بیج تیار کیا گیا  جس کی پیداواری صلاحیت زیادہ تھی۔ جس کے اوپر حشرات کا حملہ بھی کم ہوتا تھا۔ اور بھی بہت ساری دیگر خصوصیات تھیں۔ اس بیچ کی کامیابی کے لیے میں نے بہت کوشش کی میں نے حکومتی سطح متعارف کرنے کی کوشش کی۔ زمینداروں تک پہنچانے کے لیے بھی ہم نے پوری کوشش کی لیکن ایک امریکی کمپنی مان سینٹو ہم سے نمبر لے گئی اور اس کو اس کا بیج سیل ہونے لگا ہماری تحقیق اور کوشش کے باوجود ہم کامیاب نہیں ہو سکے۔ اگر ہم یہ ہائبرڈ بیج لانچ کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو میں نے اندازہ لگایا کہ ہمیں اس سے دو سو بلین ڈالر کا فائدہ ہوتا۔ 11 کمپنیز کے ساتھ ہم نے یہ کنٹریکٹ کیا تھا۔ان کمپنیز نے کہا تھا کہ ہم اپنی فصلوں میں یہ بیج لگائیں گے اس کے بعد میں یونیورسٹی چھوڑ گیا اور مجھے نہیں معلوم کہ اب اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ 

پنجاب یونیورسٹی میں سیاسی مداخلت بہت زیادہ تھی طلبہ کی اتنی گروپ بندی تھی کہ جب میں یونیورسٹی میں آیا ہاسٹل نمبر ایک میں تقریبا 70 کمرے ایسے تھے جس کو باہر کے لوگوں نے قابو کیا ہوا تھا۔ اور ان کا یہ مسئلہ تھا کہ جو طالب علم باہر بیٹھ کے پڑھ رہے ہوتے تھے ان کو بھی اذیت دیتے تھے اور ان کے اندر بھی بدلے کا جذبہ جاگتا اور وہ خود سے کوشش کرنا شروع کر دیتے اور وہ الگ سے بدلے کے لیے گروپ بندی کرنا شروع کر دیتے تھے۔ تو ہم نے قابل اساتذہ کو ان ہاسٹلز کا انچارج بنایا اور ان کو یہ ٹاسک دیا کہ یہاں سے ایسے عناصر کو باہر نکالا جائے جو قبضہ کر کے بیٹھے ہیں اور جب میں نے یونیورسٹی چھوڑی اس وقت صرف 14 کمرے ایسے رہ گئے تھے جن پر باہر کے لوگوں نے قبضہ کیا ہوا تھا باقی سب خالی ہو گئے۔ 

ہماری یونیورسٹی میں ایک مرتبہ ایک تقریب ہوئی تنظیمی سطح پر۔ اس تقریب میں ایجوکیشن منسٹر رضا علی گیلانی بطور مہمان خصوصی آئے اور انہوں نے یونیورسٹی کی انتظامیہ سے اجازت نہیں لی اور نہ ہی آگاہ کیا۔ اس تقریب کے دوران کسی دوسرے گروہ نے حملہ کر دیا۔ ان کی اپس میں لڑائی شروع ہو گئی ۔ یہ میرے لیے ایک بہت ہی حیران کن بات تھی مجھے سمجھ آگئی کہ یہاں پہ ایسا بھی کچھ ہوتا ہے۔ اس کے بعد میں نے خود کوشش کی اور انتظامیہ کو بتایا کہ آج کے بعد کوئی بھی فنکشن یونیورسٹی کی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہوگا۔

ان  منسٹر حضرات نے ہم سے کہا کہ ہم کاروائی کریں گے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جناب آپ کروائی اپنے آپ سے شروع کریں کہ سب سے پہلی غلطی تو آپ کی ہے کہ آپ بغیر بتائے  ایک فنکشن میں چلے آئے انتظامیہ کو بھی نہیں بتانا پسند کیا ۔ گورنر تو چانسلر ہوتا ہے یونیورسٹی کا آپ منسٹر ہیں اور آپ کا یہاں پر آنا بنتا نہیں ہے اور وہ بھی بغیر بتائے۔جب آپ نے اجازت ہی نہیں لی تو یہ آپ کی اپنی ذمہ داری ہے۔ آپ کو بالکل نہیں آنا چاہیے تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کا دائرہ کار بہت بڑا ہے اس وجہ سے ہر حکومت چاہتی ہے کہ وہ اس یونیورسٹی میں مداخلت کرتی رہے۔ 

یہ ایک طرف کا پریشر ہے۔ اس کے علاوہ ملازمت کے لیے ہمیں بہت ساری جگہوں سے دباؤآتے تھے۔ میں نے چھ مہینے تک نئی ملازمتوں کو پر پابندی لگا دی اور کہا کہ کسی سفارشی کو ملازم نہیں رکھا جائے گا۔ 

جب داخلے ہوتے تھے اس وقت میرے پاس لسٹ موجود ہوتی تھی سفارش کے لیے۔ اور یہ ظاہری سی بات ہے جب اپ کسی بھی سیاسی جماعت کے مفاد کو روکنے کی کوشش کریں گے ان کو یونیورسٹی میں ملازمتیں بھی نہیں دیں گے داخلے بھی نہیں دیں گے اور ان کی تنظیمی ایکٹیوٹیز پر بھی پابندی لگا دیں گے تو مزاحمت تو پھر ہونی تھی۔ جو ملازم پروفیسر اور ڈین ایماندار تھے میں نے ان کو اداروں کا انچارج بنایا کیونکہ مجھے پتہ تھا وہ میرٹ کے علاوہ کام نہیں کریں گے۔ 

یونیورسٹی میں باقی سٹاف جو مجھے پسند نہیں کرتا تھا اس نے نیب کو درخواستیں دیں کہ میرے خلاف کاروائی کریں لیکن ایک روپیہ بھی ثابت نہیں ہو سکا۔ 

میں نے ہاسٹلز میں اور باقی ڈیپارٹمنٹس میں بائیوم میٹرک سسٹم متعارف کروایا۔ اس سے ہم باہر کے عناصر کو الگ کرنے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ لڑکیوں کے ہاسٹل میں ہم نے کامیابی سے سسٹم بنا لیا تھا لیکن لڑکوں کے ہاسٹل میں اس طرح سے کامیابی نہیں ملی لیکن پھر بھی بہت اچھا رہا۔ 

ہاسٹلز کی لڑائیوں میں میں نے جن لوگوں کو انچارج بنایا ہوا تھا ان کو میں نے کہا تھا کہ کوئی بھی اگر اس طرح کی صورتحال بنتی ہے لڑائی کا ماحول بنتا ہے اپ مجھے فون کریں میں فورا وہاں پہنچ کے خود مسئلے کو حل کروں گا اور ایسا ہی ہوتا تھا دونوں فوجوں کی طرح ایک دوسرے کے امنے سامنے ہوتے تھے فریق اور قریب تھا کہ لڑنا شروع کر دیں اور ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیں ایسی صورتحال میں بھی میں وہاں پہ گیا اور وہاں پہ دونوں کو ٹھنڈا کر کے معاملہ حل کیا ہے۔ اس طرح کی ایک قد لڑائی ہوئی اس کے بعد میرے ہوتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی میں اتنی بڑی لڑائی دوبارہ نہیں ہوئی۔

حصہ سوئم

ڈاکٹر علی ساجد: ہمیں نظر آ رہا تھا جب آپ پنجاب یونیورسٹی کے ماحول کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو آپ کو کن کن دشواریوں کا سامنا تھا۔ آپ پرخلوص انداز سے کام کر رہے تھےاور لوگ آپ کے لیے مسائل پیدا کر رہے تھے۔ آپ کا خلوص، جذبہ، محنت اور لگن واضح طور پہ نظر آتی تھی۔ اس کے علاوہ کس طرح کی مشکلات کا سامنا رہا یاان مسائل کی شدت کیا تھی؟
پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر: ڈاکٹر صاحب خلوص اور جذبے کے بغیر یہ اقدامات ہو بھی نہیں سکتے۔ مجھے خطوط ملتے تھے اور ان خطوط میں مجھے باقاعدہ دھمکی دی جاتی تھی۔ میں نے گورنمنٹ کو ان خطوط سے آگاہ کیا گورنمنٹ نے مجھے سیکیورٹی کے طور پہ دو تین گارڈز بھی مہیا کیے۔ 
میں نے یونیورسٹی کے ماحول کو بہتر کرنے کے لیے کلاسوں میں خود جانا شروع کیا سرپرائز وزٹ کرتا تھا۔ اس بات کو یقینی کرتا تھا کہ ٹیچر کلاس میں موجود ہو اور طلبہ بھی آنا شروع ہو جائیں۔ کیونکہ جب کلاس کےوقت کی پابندی  ہو،  ٹیچر موجود ہو تو طلبہ خود بخود کلاسوں میں آنا شروع ہو جاتے ہیں اور تدریس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اگر یہ معلوم ہی نہ ہو کہ کلاس ہونی ہے یا نہیں ہونی تو پھر وہ کلاس کا ماحول بھی نہیں بنتا۔ 
تھیسز کے ڈیفنس میں جو پینل بیٹھتا تھا  اس میں ،میں خود ہوتا تھا۔ ہم نے اس معیار کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے جیسے  بین الاقوامی سطح  پر ہوتا ہے۔ 
میں نے دیکھا اس وقت یہ ایک مسئلہ تھا کہ کوئی بھی نہ تو مڈ ٹر م  کے نمبرز جمع کرواتا تھا اور نہ ہی اسائنمنٹ کے نمبر جمع کرواتا تھا اور آخر پر جو اچھا لگتا تھا۔ اس کو اتنے نمبر دے دیے جاتے تھے اور جو اچھا نہیں لگتا تھا اس کو فیل کر دیا جاتا تھا۔ اس کے لیے میں نے شعبہ امتحان کو یہ ہدایات جاری کی کہ امتحان کے ایک ہفتے کے اندر عدد رزلٹ دکھایا جانا چاہیے۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اساتذہ نے ذمہ داری سے کام کرنا شروع کر دیا۔ 
جیسا کہ باہر کی یونیورسٹیز میں ہوتا ہے انہوں نے پورٹل سسٹم بنایا ہوتا ہے۔ہم نے پورے پراسس کو آن لائن کرنے کے لیے ڈیپارٹمنٹس میں آن لائن پورٹل متعارف کروایا۔ 
ہم نے پنجاب یونیورسٹی کے 83 ڈیپارٹمنٹس کے ہیڈ کو یہ ہدایات دی کہ وہ اپنے کریکلم  Curriculum کو بہتر کریں۔تقریباً کئی سالوں سے کریکلم کے اوپر کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ اس پہ کام ہوا اور بہت ساری اپروولز میں نے خود بھی کی ہے۔ 
 ڈگری کی تصدیق کروانا طلبہ کے لیے بہت بڑا مسئلہ تھا میں خود بھی ایسے حالات سے واقف تھا۔ کوئی بھی طالب علم جس کو یونیورسٹی سے اپنی ڈگری کی تصدیق کروانی ہوتی تھی اس کو ہفتے لگ جاتے تھے کئی کئی لوگوں سے جا کے ملنا پڑتا تھا وقت ضائع ہوتا تھا۔ میں نے اس میں یہ بہتری کی کہ اس پورے پراسس کو ایک دن میں مکمل کروانے کی کوشش کی اور اس کے لیے ون ونڈو اپریشن مکمل کروایا جس نے بھی اپنی ڈگری کی تصدیق کروانی ہے وہ ایک ونڈو پر آئے گا وہیں پہ اسے فارم ملے گا وہیں پہ اس کی ڈگری کی تصدیق ہوگی اور ادھر ہی اس کا مکمل پراسس ہو جائے گا۔ 
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب آپ کے یہ اقدامات سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہیں۔ طلبہ کے لیے ان کی تعلیم کے لیے ان کے مستقبل کے لیے جو اقداماتآپ نے یونیورسٹی کے اندر کیے ہیں ان کو تاریخ ہمیشہ یاد کرے گی اور میں نے دیکھا جب ان کے اثرات انا شروع ہوئے تو اچانک ہمیں آپ کے جانے کی خبر ملی ہمیں بہت دکھ ہوا آپ نے ایک ٹی وی چینل کو مختصر سی گفتگو میں یہ بتایا بھی تھا۔ لیکن تفصیل کا اندازہ نہیں ہے کہ اچانک کیا ہوا جس کی وجہ سے آپ کو یونیورسٹی چھوڑ کر جانا پڑا؟
ڈاکٹر ظفر معین ناصر: ڈاکٹر صاحب نوکری چھوڑنے کا خوف نہیں تھا کیونکہ مجھے پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر بھی کام مل جاتا تھا۔ نوکری  ناملنے کا مجھے کبھی خوف نہیں رہا۔ پنجاب یونیورسٹی کو چھوڑنے کی دو وجوہات تھیں ایک یہ کہ واپڈا کے محکمے نے گورنمنٹ کو یہ کہا کہ گرڈ اسٹیشن کے لیے پنجاب یونیورسٹی سے 80 کنال کا رقبہ انہیں دلوایا جائے۔ اور دوسرا سیاسی جماعت کا ایک مدرسہ تھا اورنج لائن کے منصوبے کی زد میں آتا تھا ان کا یہ مطالبہ تھا کہ پنجاب یونیورسٹی سے ایک حصہ ان کو دلوایا جائے۔ یہ دونوں چیزیں میرے لیے بہت مشکل تھیں کہ یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ اس کے رقبے کو کیوں کم کیا جائے؟ 
ہم نے سربراہان کو بتایا کہ یونیورسٹی کو اس زمین کی شدت سے ضرورت ہے اس میں طلبہ کے لیے سپورٹس کا انعقاد ہوتا ہے یہاں پہ یونیورسٹی کی  تقریبات ہوتی ہیں یہاں پہ بہت سارے معاملات ہوتے ہیں جو یونیورسٹی کو شدت سے چاہیے ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے مدرسے کو زمین دینی ہے تو اس کے بالکل پاس ایک سرکاری زمین موجود ہے اور وہ استعمال میں بھی نہیں ہے تو وہ ان کو دے دیں۔ اور مدرسوں کا یہ مسئلہ ہے کہ جب آپ ان کو یہ زمین دے دیں گے ۔تو ان کے معاملات پھیلتے چلے جاتے ہیں اور بہت سارا ارد گرد کا دوسرا رقبہ بھی ان کے تحویل میں آ جاتا ہے اور آپ اس کو روک نہیں سکتے ۔ ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں بہت ساری دوسری زمین بھی زد میں آ جاتی ہے۔ اور اس کا حل یہ تھا کہ اس کے قریب ہی ایک زمین پڑی ہوئی تھی اگر وہ نہ ہوتی تو ہم یہاں سے زمین کا ٹکڑا دے دینے کے لیے راضی تھے۔ سنڈیکیٹ کی میٹنگ میں  مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ گورنمنٹ کا اثر ہے اور لوگ ان کو اجازت دے دیں گے۔ یہ محسوس کرتے ہوئے میں نے سنڈیکیٹ کی میٹنگ ختم کروا دی اور گورنمنٹ کو واضح جواب دیا کہ میں یہ زمین نہیں دے سکتا۔ 
اس کے بعد مجھے گورنمنٹ کا ارادہ سمجھ آگیا کہ گورنمنٹ ہر حال میں ان کو یہ زمین دینا چاہتی ہے۔ انہوں نے میرے اوپر دباؤ بنانا شروع کر دیا۔ میں نے پھر یہی حل سوچا کہ اگر زمین دینی ہی ہے تو یہ الزام میرے اوپر نہیں آنا چاہیے تم میں بطور وائس چانسلر تو یہ نہیں دے سکتا تو لہذا میں استیفیٰ دے دیتا ہوں۔ یہ سوچ کے کہ یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہے اس میں طلبہ پڑھتے ہیں اور میں اس ادارے کا ذمہ دار ہوں ۔اس کی زمین کی حفاظت بھی میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں اس کی حفاظت کروں یا پھر مجھے اس عہدے پہ نہیں رہنا چاہیے۔ 
ڈاکٹر علی ساجد: مجھے لگتا ہے پنجاب یونیورسٹی کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ سے بھی زیادہ یہ پہلی دفعہ ہوگا کہ کوئی وائس چانسلر اصولوں کی بنیاد پہ مستعفی ہوا ورنہ تو ایسا دیکھا گیا کہ وائس چانسلر رہنے کے لیے لوگ گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں۔ 
ڈاکٹر ظفر معین ناصر: مجھے اپنے فیصلے پر بہت خوشی ہے اور اس کے بعد میں نے دیکھا کہ میڈیا نے بہت اہم کردار ادا کیا اور اس اقدام کو اتنے اچھے انداز سے بیان کیا کہ آخر گورنمنٹ نے اپنا فیصلہ تبدیل کر دیا اور وہ زمین یونیورسٹی کی نہیں دی۔ کوئی اور زمین الاٹ کر دی۔ 

اگر میں چار سال کا عرصہ مکمل کرتا تو ہم پنجاب یونیورسٹی میں میڈیکل کالج بھی بناتے کیونکہ میرا خیال تھا کہ پنجاب یونیورسٹی ایک ڈگری دینے والا ادارہ ہے تو اس کا اپنا بھی میڈیکل کالج ہو سکتا ہے اور اس کے پاس اپنی زمین بھی موجود ہے۔ اور بھی بہت سارے اقدامات تھے جو ہم نے سوچے ہوئے تھے کہ اس دوران میں ہم نے مکمل کرنے تھے۔ ہمارے سامنے LUMS کی بہترین مثال ہے کہ اتنے کم عرصے میں وہ بین الاقوامی سطح پر پہنچ چکی ہے ہم چاہتے تھے کہ پنجاب یونیورسٹی کو بھی اس سے اگے لے جائیں۔

حصہ چہارم

ڈاکٹر علی ساجد : ڈاکٹر(ظفر معین ناصر ) صاحب ہم مسائل کو باہر سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ نے یونیورسٹی میں تین سال گزارے ایسی کیا وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پنجاب یونیورسٹی کا درجہ اوپر نہیں جا رہا حالانکہ قائد اعظم یونیورسٹی اور لمز LUMSیونیورسٹی یہ نئی  یونیورسٹیز ہیں وہ بین الاقوامی سطح پر چلی گئی ہیں؟ 
ڈاکٹر ظفر معین ناصر: ڈاکٹر(علی ساجد) صاحب اس میں جو اہم پہلو  یہ ہے کہ اگر یونیورسٹی سے اساتذہ میں سیاسی مداخلت کو نکال لیں اور اساتذہ کو ریسرچ اور تدریس پر مرکوز کر دیں ادارہ ترقی کرنا شروع کر دے گا۔ اساتذہ کی یونینز ہیں یونیورسٹی لیول پر بھی یونین ہیں صوبائی لیول پر بھی ہیں اور بڑے لیول پر بھی ہیں جو ایک دوسرے کے مفاد کو محفوظ کرتی ہیں۔ اس طرح کی یونینز فیکٹریوں میں ہوتی ہیں تاکہ مزدوروں کے حقوق محفوظ رہیں اور کوئی ان کے ساتھ زیادتی نہ کر سکے یونیورسٹی لیول پہ ایسا نہیں ہوتا۔ 
دوسرا اہم پہلو ہے کہ ٹیچرز کی ٹریننگ ہونی چاہیے نوکری میں آنے سے پہلے۔ جیسے باقی اداروں میں نوکری میں آنے سے پہلے ان کو شروع میں ٹریننگ دی جاتی ہے اور اس ٹریننگ کا اثر پوری زندگی رہتا ہے۔ ٹیچرز کی ٹریننگ ہونی چاہیے اور مسلسل ٹریننگ ہونی چاہیے۔ 
ایک اور اہم پہلو ہے کہ انٹرنیشنل لیول پر یونیورسٹیز میں ریسرچ ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اداروں میں تحقیق کا کوئی رجحان ہی نہیں ہے۔ اخباروں میں کالم لکھنے کے بعد یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کو ریسرچ کے طور پر لیا جائے۔ جب آپ پہلے نمبر کے جنرلز میں پبلش نہیں کرتے تو آپ کو دنیا میں کوئی نمائندگی نہیں حاصل ہوگی۔ 
طلبہ کا تعلیم کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین  سے ہمیں ایک خط موصول ہوا جس میں یہ بتایا گیا کہ آپ کے طلباء میں ایک عام سا ٹیسٹ پاس کرنے کی معیاری صلاحیت موجود نہیں ہے۔ اب طلبہ کا معیار تو تب بہتر ہوگا جب معیاری اساتذہ انہیں کوئی معیار سکھائیں گے۔ اساتذہ ایسے ہونے چاہیے جنہیں پڑھانا آتا ہو۔ جنہوں نے کوئی تحقیق کی ہو۔ جنہیں بولنا آتا ہو۔ جن کے اندر وہ ساری صلاحتیں موجود ہوں جو پڑھانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم امریکہ میں پڑھتے تھے اس وقت ان اساتذہ سے پڑھتے تھے جو خود کتابیں لکھ چکے ہوتے تھے اور ہم ان کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھتے تھے۔


اس کے علاوہ جو کیو ایس رینکنگ ہوتی ہے اس میں تعلیم کے علاوہ دیگر سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جاتی ہے ہمارے طلباء میں تعلیم کے علاوہ دوسری سرگرمیوں کا رجحان ہی نہیں پایا جاتا۔ ہمارے طلبہ کا رویہ بالکل بھی ایسا نہیں لگتا کہ وہ کسی پڑھے لکھے ادارے سے گزر کر جا رہے ہیں۔ ہمارے طلبہ کے اندر لیڈرشپ سکل ہونی چاہیے۔ ان کے پاس کمیونیکیشن سکل ہونی چاہیے۔ 
ایک اہم مسئلہ ہے جو کہ یونیورسٹیوں کو یا کسی بھی تعلیمی ادارے کو اوپر والے درجے میں نہیں آنے دیتا وہ حکومت کی غیر ضروری مداخلت ہے۔ جب تک سیاسی مداخلت ہوگی اور حکومتی مداخلت ہوگی تو غیر معیاری اساتذہ سٹاف میں شامل ہوتے جائیں گے اور وہ طلبہ کو کبھی بھی معیاری تعلیم نہیں دے سکیں گے۔ 
یونیورسٹی میں ہم نے کچھ اساتذہ کو باہر سکالرشپ پر بھیجنا ہوتا ہے ان کے لیے میں سمجھتا ہوں ضروری ہے کہ وائس چانسلر ایک کمیٹی مقرر کرے اور یہ معیار بنائیں کہ جب تک اپ 50 یونیورسٹیز  میں جو بہتر درجہ رکھتی ہیں اپلائی نہیں کریں گے ہم آپ کو سکالرشپ نہیں دیں گے۔ اساتذہ غیر معیاری اور غیر مقبول یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں اور سکالرشپ  لے لیتے ہیں جس سے فائدہ نہیں ہوتا قوم کو۔ کیونکہ جب بڑی بڑی یونیورسٹیز میں ہمارے لوگ جاتے ہیں تو وہاں پہ لیڈرشپ سیکھتے ہیں وہاں سے وہ ایک بڑے لیڈر بن کر آتے ہیں۔ کیونکہ اکثریت اساتذہ کی درمیانے اداروں سے پڑھ کے آئی ہوتی ہے تو وہ درمیانے درجے کے ہی طالب علم مارکیٹ میں لا رہے ہیں۔ 
ڈاکٹر علی ساجد: 2002ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا۔ اس نے بہت اچھے اقدامات کیے جس کے نتائج20 سال بعد آج نظر آرہے ہیں۔ اور یہ تغیر کا اچھا سلسلہ جاری ہے۔ مزید بہتری کے لیے آپ کا کیا خیال ہے کہ بہتری کی گنجائش اور تبدیلی کی گنجائش موجود ہے یا نہیں ہے؟
اور کیا اس میں سٹیک ہولڈرز کنسلٹیٹو ڈائیلاگز ضروری ہیں یا نہیں ہیں؟

ڈاکٹر ظفر معین ناصر: ڈاکٹر صاحب میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں میرے خیال میں کنسلٹیٹو ڈائیلاگ کے بغیر یہ بہتری ممکن ہی نہیں ہے۔
میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ معلوم نہیں کہ یہ ہمارا طریقہ کار ایسا  کیوں ہے یا لوگ آگے انا ہی نہیں چاہتے۔ ہم نے ایپلائمنٹ کے حوالے سے ملک بھر میں کنسلٹیٹو ڈائیلاگز کی کوشش کی لوگوں کو آگے لانے کی کوشش کی لیکن لوگ آگے آنے میں محتاط ہوتے ہیں۔ پورے پاکستان میں اساتذہ کی موجودگی فوج کی موجودگی سے زیادہ ہے۔  تعلیم کے حوالے سے کامیاب پالیسی تب بنے گی جب گلگت سے گوادر کراچی سے  کشمیر تک کے اساتذہ کو بلائیں گے اور ان سے معاملات بحث میں لائیں گے اور ایک ڈرافٹ تیار کریں گے۔ جس کو پھر پورے پاکستان میں پھیلانا ہے۔ اس کے بعد جو بھی نتائج آئیں گے اس کی بنیاد پر آپ پالیسی بنائیں ۔ جب اس طرح آپ کامیاب پالیسی اور منصوبے بنائیں گے آپ خود انکھوں سے دیکھیں گے کہ وہ کس طرح سے عمل درامد ہوتے ہیں اور اس میں پھر بہتری کا جو عمل ہے ہر پانچ سال بعد جاری رہنا چاہیے۔ 

ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب آپ پنجاب یونیورسٹی میں جو کہ پاکستان کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی اور سب سے اہم یونیورسٹی ہے بطور وائس چانسلر رہے ہیں۔ کیا آپ کو شروع میں  جاب ڈسکرپشن دی گئی  تھی کہ آپ نے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے؟
ڈاکٹر ظفر معین ناصر: ڈاکٹر (علی ساجد )صاحب مجھے لگتا ہے کہ اس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پہلی دفعہ میں نے آ کر پروفیسر حضرات کے لیے  معیار منتخب کیے اور ان کی بنیاد پر آگے ان کو ترقی دی۔ 
میرا خیال ہے پاکستان کی جتنی بھی بڑی یونیورسٹیز ہیں ان میں ہماری سیاسی جماعتوں کا بہت مفاد جڑا ہوا ہے۔ بہت ساری یونیورسٹیز میں وائس چانسلر سیاسی جماعتوں کی مدد سے بنتے ہیں پھر ان کے مفاد کو دیکھتے ہیں ان کے لیے کام کرتے ہیں ان کے لوگ لگواتے ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی کا ماحول تحقیق کی جانب نہیں جاتا ترقی کی طرف تو جاتا ہی نہیں۔ میرا ماضی سیاست سے جڑا ہوا نہیں تھا اس لیے مجھے لگتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کو میں ایک ڈائنمک لیول پر لے کر جانا چاہ رہا تھا اور اس میں میں نے سیاسی مداخلت کو بالکل قبول نہیں کیا۔ 
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب آپ نے بالکل درست فرمایا ہے جب تک یونیورسٹیز میں تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت ہوتی رہے گی کبھی بھی کوئی بڑے لیڈر  وہاں  پیدا نہیں ہوں گے۔ وہاں پہ ماحول بہتر نہیں ہوگا۔ میں نے خود ایسے وائس چانسلر دیکھے ہیں جن کو سیاسی طور پہ مدد حاصل ہوتی  ہے۔ وہ چار سال ایک یونیورسٹی میں رہتے ہیں اور اس کے بعد اپنا  دورانیہ  پورا کرنے کے بعد دوسری یونیورسٹی میں لگ جاتے ہیں ۔وہاں پہ کبھی بھی بہتری نہیں آ سکے گی۔ بین الاقوامی ایجنڈا بھی یہی ہے کہ پاکستانی قوم کو اسی طرح سے مصروف رکھو وہاں پہ کوئی بھی قابل آدمی لیڈر نہ بنے کیونکہ وہ بن گیا تو بہتر یہ ہوگی اور ترقی کی طرف لوگ گامزن ہو جائیں گے اور یہ ان کو قبول نہیں ہے اور وہ اسی طرح سے یہ کام کرتے ہیں غیر متعلقہ لوگ ہمارے اوپر نافذ ہو جاتے ہیں اور ہمارے اداروں کو ترقی سے روکتے ہیں۔ آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟ 
ڈاکٹر ظفر معین ناصر: ڈاکٹر صاحب بالکل صحیح فرمایا آپ نے ہمارا بہت عرصے سے یہی المیہ رہا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں مداخلت رہی ہے اگر بہتری چاہتے ہیں تو آپ یونیورسٹیز کو بالکل ایک آزاد ادارہ بنائیں اور اس میں سیاست کی مداخلت بالکل نہ ہو  تاکہ یونیورسٹی اپنے لیے جو بھی فیصلے کرے وہ بالکل میرٹ کی بنیاد پر ہو۔ 
دوسرا اس حوالے سے میں کہنا چاہوں گا کہ وائس چانسلرز کا انتخاب ایچ ای سی کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے ایچ ای سی کو چاہیے کہ لوگوں کا انتخاب کرے اور معیار کے مطابق کرے ۔اور ایک خاص طریقہ کار کے مطابق کرے جو اس کے لیے بالکل اہلیت رکھتے ہوں۔ موجودہ وائس چانسلر کو سلیکٹ کرنے کا طریقہ یہ ہے ایک کمیٹی بنتی ہے۔ اس کمیٹی میں تین لوگوں کے نام آتے ہیں اور ان ناموں میں سے ایک شخص کو پرائم منسٹر  یا صدرسلیکٹ کرتا ہے۔ انتخاب کا یہ طریقہ ایسا ہے کہ  اس میں سیاسی مداخلت شروع ہو جاتی ہے۔ 
ڈاکٹر علی ساجد: ڈاکٹر صاحب یہ بتائیے گا کہ وائس چانسلر کے انتخاب کے حوالے سے آپ نے بتایا اب ان کے انتخاب کا معیار کیا ہونا چاہیے اگر ہم ان کی لسٹ لگا دیں گے اور میرٹ کی بنیاد پر انہیں سلیکٹ کریں گے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا ہم اگر پیپر کے اوپر ٹیسٹ لیتے ہیں تو اس میں لیڈرشپ کی کوالٹی کا پتہ نہیں چلتا اور اگر ہم اس کا ماضی  دیکھتے ہیں تو وہ معلومات غلط بھی ہو سکتی ہے۔ تو اس کی خوبیوں کا اور اہلیت جانچنے  کا معیار کیا ہوگا؟
ڈاکٹر ظفر معین ناصر: ڈاکٹر صاحب اس کے حوالے سے میں کہنا چاہوں گا کہ اس میں ہمیں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیز کا ہم نے ماڈل اٹھانا ہے۔ وہ کیسے ترقی کرتی ہیں؟ اس میں وائس چانسلر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟ ان کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور ان کا معیار کیا ہے؟ وغیرہ۔ ہمیں دوبارہ سے اس کے اوپر ریسرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور آپ انٹرویوز جب کرتے ہیں آپ کو معلوم ہو جاتا ہے اس کی  شخصیت کا اس کی خوبیوں کا اس کی خامیوں کا۔ 
امریکن یونیورسٹی میں جب میں انٹرویوز لیا کرتا تھا تو مجھے فوراً سمجھ آ جاتی تھی کہ کون سے لوگ کس کیٹگری کے ہیں؟ کس کے اندر کتنی اہلیت ہے؟ اور انتخاب میں میں نے دیکھا ہے کہ آج بھی وہ لوگ کام کر رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے میں آپ نے جتنے لوگوں کو بھی انتخاب کرنا ہے ان کو ایک ٹارگٹ دیں۔ آپ کو بہت سارے چھوٹے چھوٹے کام ٹارگٹ بنا کر کرنے ہوتے ہیں جو کہ کبھی بھی سیاسی مداخلت سے ممکن نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پہ طلبہ کو کوئی معلومات چاہیے تو انہیں لائن میں لگنا پڑتا ہے ان کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ ان کے لیے اپ ایک لینڈ لائن مقرر کر لیں کہ وہ فون کر کے معلومات لے سکیں۔ ان کے لیے ویب سائٹ پہ ایسی سہولیات دے دیں کہ سارے سوالوں کے جواب ان کو فوراً مل جائیں اس سے آپ کے ادارے کا امیج بھی بہتر ہوتا ہے اور ترقی بھی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ ہزاروں ایسے چھوٹے چھوٹے  اقدامات ہیں جس میں سٹوڈنٹ آسانی محسوس کرتا ہے۔ جب سٹوڈنٹ سہولت محسوس کرتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور دل لگا کے کام کرتا ہے اور یہی کچھ تو ہمیں کرنا ہے۔ جب ایک طالب علم مطمئن ہو کے آپ کے ادارے سے باہر جائے گا تو وہ آپ کا سب سے بڑا نام ہے۔ 
ڈاکٹر علی ساجد: کسی بھی ادارے کو ترقی دینے کے لیے بہت سارے چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جو کہ ایک خود قابل اور اہلیت والا بندہ ہی کر سکتا ہے کیا آپ یہی کہنا چاہتے ہیں؟ 
ڈاکٹر ظفر معین ناصر: بالکل میں اتفاق کرتا ہوں آپ کی بات سے کیونکہ جس کے پاس کوئی نظریہ کوئی سوچ اور ویژن ہی نہیں ہے وہ تعلیمی ادارے کا سربراہ بن کے کیا کرے گا؟ یا کر سکے گا؟ جس آدمی کے پاس نئی سوچ اور نئے خیالات ہیں اس کے پاس یہ توانائی بھی ہوتی ہے کہ وہ ان کو امپلیمنٹ بھی کرے۔ 
ڈاکٹر علی ساجد: ہے ڈاکٹر صاحب میری تصحیح یا  تر دید  کیجئے گا کہ کیا یہ تصور ٹھیک ہے کہ سرکاری یونیورسٹیز میں جو بھی وائس چانسلر ز  منتخب ہوتے  ہیں ان کو صرف برائے نام عہدہ دیا جاتا ہے اور روایتی کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اور وہ اسی کام کے لیے موجود ہوتا ہے؟ 
ڈاکٹر ظفر معین ناصر: لیڈر کا کام ہوتا ہے نئے خیالات پہ کام کرنا نئی سوچ کو پروان چڑھانا چیک پر دستخط کر لینا ڈاکومنٹس چیک کر لینا حاضری لگانا یہ تو کوئی بھی سٹاف کر سکتا ہے۔ یونیورسٹیز آپ  چاہے جتنی بنا لیں پورے ملک کے کونے کونے میں بنا لیں ۔ان کے وائس چانسلرز یا ان کے سربراہان جب تک لیڈر نہیں ہوں گے تو کاغذی کاروائی ہوتی رہے گی کاغذوں میں چیزیں بنتی رہیں گی اور ادارے بن جائیں گے۔ ایسے اداروں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !